مجھے میرے دوست ڈاکٹر ایس جے رائے صاحب نے بتایا کہ میرے پاس سانپ کا ایک اعلیٰ تریاقہے جس کے حصول کی کیفیت بھی از حد دلچسپ اور عجیب و غریب ہے ۔ وہ یہ ہے کہ میرے ایک کرفرمانے مجھے بتایا کہ میں اجمیر کے علاقہ میں کسی جنگل کا سفر کر ر ہا تھا کہ اچانک مجھے ایک سانپ اور نیولا لڑتے ہوئے نظر پڑے۔ چنانچہ میں دور کھڑا ہوا ان کی لڑائی کو بغور دیکھنے لگا۔ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ سانپ سخت زہریلا اور طاقتور ہے ۔ مگر نیولا اس سے ہر طرح کمزور ہے۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں سانپ نے کئی بار نیولے کو ڈسا جس سے نیولا کئی ایک جگہ سے زخمی ہو گیا۔ مگر جونہی نیولے پر زہر کا اثر ہونے لگا۔ وہ فوراً داؤ بچا کر بھاگ گیا۔ میں نےخیال کیا۔ کہ چونکہ نیولا شکست کھا کر بھاگا ہے ۔ نامعلوم کہاں جا کر دم لے گا ۔ مگر خلاف امید نیولا زیادہ دور نہیں گیا۔ بلکہ تھوڑی دور جا کر رک گیا اور ایک بوٹی کو توڑ کر کھانے لگا اور تھوڑی دیر میں پھر وہیں اسی سانپ سے مقابلہ کرنے کو آدھمکا۔ علی ہذا القیاس اسی طرح دو تین بار مغلوب ہو کر بھاگتا اور ایک بوٹی کے پتے کھا کر پھر مقابلہ کرتا رہا- حتیٰ کہ اس نے اس زہریلے سانپ کو جان سے مار ڈالا اور جاتے ہوئے یعنی اپنی مکمل فتح کے بعد بھی اس بوٹی کو کھا کر کسی نامعلوم جگہ کوچلاگیا
مجھے خیال ہوا کہ ضرور یہ بوٹی سانپ کے زہر کا تریاق ہو گی ۔ اسی خیال سے میں نے اس بوٹی کو جا کر دیکھا۔ اور ادھر اُدھر سے چند پودے اکھاڑ کر اپنے جھولے میں ڈال لیے تاکہ بوقت ضرورت بنی نوع انسان پر بھی تجربہ کر کے دیکھا جائے یہ تھی مختصر کیفیت جو انہوں نے بنائی۔ چنا نچہ ڈاکٹر صاحب نے ان سے اس بوٹی کا حلیہ وغیرہ پوچھ کر اس بوٹی کو تو تھانہ مونک علاقہ نپیالہ کے گردو نواح سے تلاش کرالیا ۔ مگر ابھی شوق تجربہ باقی تھا۔
ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ میں اس بوٹی کولے کر ریلوے اسٹیشن جاکھل سے گاڑی پر سوار ہوا تواسی ڈبہ میں ایک ایسا مریض دیکھنے میں آیا جس کے ہر موٹے تن سے خون جاری تھا۔ در یافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کو سخت زہریلے سا نپ نے کاٹ کھایا ہے۔ اس کو کسی ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے ۔ مگر اس ڈاکٹر صاحب نے جب اس کو جانبر ہوتے نہ دیکھا۔ تو مایوس ہو کر کہ دیا کہ اس کو گھر لے جاؤ۔ تاکہ اپنے متعلقین سے تو مل لے ۔ کیونکہ اب یہ بچے گا نہیں ۔ میں نے کہا گواس کی حالت اب آخری ہے مگر جب تک سانس تب تک اس والے مقولے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک دوا میں دیتا ہوں اگر خدا کا فضل شامل حال ہوا تو ممکن ہے کہ اس کی جان بچ جائے ۔ انہوں نے بھی بقول ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ میری بات کو منظور کرلیا۔
چنانچہ میں نے ذرا علیحدہ ہو کر اس بوٹی کو پیسا۔ اور اس کی تین گولیاں بنادیں۔ اورکہہ دیا کہ ایک گولی ابھی دے دو باقی چند گھنٹے کےوقفہ سے دے دینا۔ قصہ مختصر اتنے میں ان کا اسٹیشن آ گیا۔ اور وہ وہیں اتر گئے۔ اور میں بٹھنڈہ ہوتے ہوئے سرسہ پہنچ گیا ۔ مگر اس کا نتیجہ معلوم کرنے کا شوق دل میں ہی رہ گیا۔
دوسرے روز میں اپنے مطب میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک جوانمرد نے سلام کیا۔ اوربصدعجز گویا ہوا کہ آپ کے احسان کا میں براہی شکر گزار ہوں ۔ اجی آپ نے تو مجھ پر وہ احسان کیا ہے کہ جس کا مجھ سے کما حقہ شکریہ بھی ادا نہیں ہوسکت وغیرہ وغیرہ غرضیکہ اس قسم کی باتیں کر ر ہا تھا۔ کہ گویا میرے اور اس کے درمیان کوئی گہرا معاملہ ہو چکا ہے ۔ مگر میں حیران تھا۔ کہ ہے کون شخص کیونکہ میں نے اپنے خیال میں اس شخص کی کبھی شکل تک بھی نہ دیکھی تھی۔ آخرالامرمیں نے پوچھا کہ میں نے تم پر کیا احسان کیا ہے، مجھے تو یا د نہیں آتا ۔ تو وہ کہنے لگا۔ کہ شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں وہی کل والا مریض ہوں جس کے زندہ رہنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی تھی۔ بس آپ کے طفیل سے میری جان بچی ہے ۔ وہ دوا کیا تھی۔ اکسیر تھی …….. اس کے بعد مجھے اس دوا پر پورا پورا بھروسہ ہو گیا۔ اور اسی دن سے میں نے اس کو معمول مطب بنا لیا۔ اور اس کو گولیوں کی شکل میں بنا کر رکھنے لگا۔ ان گولیوں نے اب تک خطا نہیں کی ۔
میں نے یہ حکایت ڈاکٹر صاحب سے سنی ۔ تو مجھے بھی اس بوٹی کے دیکھنے کا شوق ہو گیا چنانچہ صاحب موصوف نے مجھے جناب مولانا حکیم حافظ خیرالدین احمد صاحب کے مکان پر یہ بوٹی لا دکھائی میں نے اس کے حلیہ کو خوب ذہن نشین کر لیا۔ اور علاقہ مونگ میں جاکر تلاش کرنے لگا۔ مگر اتفاقاً ان ایام میں نہ ملی۔ مگر واپس لوٹنے پر اپنے ہی علاقہ میں با فراط مل گئی۔
-:اس نسخہ کی حکماء کے بھرے مجمع میں تصدیق
حکیموں کے سالانہ اجلاس کے موقعہ پر میں نے یہ نسخہ معہ حکایت کے بیان کیا۔ تو سب بھائی بوٹی کا حلیہ اور نام وغیرہ پوچھنے لگے میں نے سب کچھ عرض کر دیا۔ تو ایک بوڑھے حکیم صاحب جن کا نام نامی غالباً شب رام صاحب تھا۔ (ساکن تبالہ) نے فرمایا کہ میں اس نسخہ کی تصدیق کرتا ہوں۔ بلکہ میرا تجربہ تو یہاں تک ہے کہ اگر مارگزیدہ کی حالت بہت ہی بگڑ چکی ہو ۔ گویا کہ وہ دوالینے کے قابل ہی نہ رہا ہو۔ تب بھی مایوس نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ اس بوٹی کو پانی میں پیس کر مریض کے ناک یا کان یا آنکھ میں ڈال دیں۔ تب بھی مریض کا زہردورہوجاتا ہے غرضیکہ یہ بوٹی سانپ کاٹے کا اعلی تریاق ہے۔ اور یقینی علاج ہے۔ اور لطف یہ کہ ملک کے اکثر حصہ میں عام مل سکتی ہے۔
-:سانپ کے زہر کو ختم کرنے والی دوا
اس بوٹی کا نام “گوما” ہے ۔ جو کہ ویدک کی مایہ ناز بوٹی ہے جس کی بابت ویدک کی کتب میں یوں لکھا ہے کہ اگر مریضان نجارکو بوٹی ”گوما” سے بھرے ہوئے گدے پر لٹا دیا جائے تو بغیر کسی دیگر دوا کے بخار اتر جاتا ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ بخار شکنی کے لیے یہ بوٹی کونین سے بڑھ کر ثابت ہوتی ہے۔
-:پودے کی شناخت کیسے کریں
موسم برسات میں پیدا ہو کر ماہ اسوج و کاتک تک رہتی ہے۔ ذائقہ سخت ۔ پودا جھاڑ دار۔ پھول برنگ سبز بمثل بھڑ کے چھتے کے سوراخدار اور خاص نشانی یہ ہے کہ ایک پھول میں ڈنڈی نکل کر دو تین بلکہ چار چار پھول اوپر نیچے لگ جاتے ہیں۔ چھ ماشہ سے تولہ تک کی مقدار میں یہ بوٹی لے کر گھوٹ کر پلانے سے سانپ کے زہر کو اتار دیتی ہے ۔ زیادہ زہریلا سانپ ہو تو دوبارہ پلائیں۔