ایک جاپانی شخص دوسری جنگ عظیم میں کسی جزیرے میں پھنس گیا تھا-اسے خود کو زندہ رکھنے کے لیے مجبوراً پھلوں، پتوں اور ترکاریوں پر گزارا کرنا پڑا- جب وہ اپنے ملک واپس آیا تو وہ ساٹھ سال کا ہونے کے باوجود چالیس سالہ لگ رہا تھا۔ اگر اس کی جگہ گوشت خور جانور ہوتے تو وہ گوشت نہ ملنے کے باعث مرجاتے۔ جانور اپنی جبلت کے لحاظ سے یکساں غذا کھاتے ہیں لیکن انسان اس کے برعکس اپنی فطرت کے علاوہ ماحول و تمدن کے مطابق اپنی غذا تبدیل کرتا رہتا ہے۔
اہل مغرب بھی عوام میں یہ شعور عام کرنے کی حتی الامکان کوششیں کر رہے ہیں کہ سبزی جاتی غذا ہی انسان کے لئے درست غذا ہے۔ امریکہ میں 1977ء سے سرکاری طور پر غذا میں سے کولیسٹرول اور چکنائی (خصوصاً حیوانی چربی) کم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ورنہ اس سے قبل حیوانی چربی اور کولیسٹرول والی غذا کو نقصان دہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اعلیٰ طبقے کی ضیافتوں میں بھی سبزی خوری کے رجحان میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ سبزیوں، پھلوں، اناجوں کی اہمیت سمجھنے لگے ہیں اور اکثر امیر لوگ بھی سبزیاں، دالیں وغیرہ شوق سے کھا رہے ہیں اور اس کے فوائد اور ذائقہ کا برملا اعتراف بھی کیا جا رہا ہے۔ اعلیٰ ریستورانوں میں بھی مہمانوں کے سامنے سبزیوں اور پھلوں کی طشتریاں بغیر جھجک کے رکھی جاتی ہیں جس کا چند سال قبل تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
